Sunday 7 February 2016

نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے

نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے
میں اک جام ہوں کس کس کے ہونٹوں تک پہنچوں
غضب کی پیاس لیے ہر بشر لگے ہے مجھے 
تراش لیتا ہوں اس سے بھی آئینہ منظورؔ
کسی کے ہاتھ کا پتھر اگر لگے ہے مجھے

ملک زادہ منظور احمد

No comments:

Post a Comment